Entertainment

// Base Scripts for subagya a.ka mochal base on phydeaux3 // Not recommended to try this script // Rewrites blog pagination function pItemPager() { topPager = document.getElementById('topPagerLinks'); if(document.getElementById('blog-pager-newer-link')){ piNewer = document.getElementById('blog-pager-newer-link').getElementsByTagName('a'); piNTitle = '»» '+piNewer[0].href.split('/')[5].replace(/-/g,' ').replace(/.html/g,''); piNewer[0].innerHTML = piNTitle; a = document.createElement('a'); a.href = piNewer[0].href; a.innerHTML = piNTitle; a.id = 'top-pager-newer-link'; a.title = piNewer[0].title; topPager.appendChild(a); } else { a = document.createElement('a'); a.innerHTML = ' '; a.id = 'top-pager-newer-link'; topPager.appendChild(a); } if(document.getElementById('blog-pager-older-link')){ piOlder = document.getElementById('blog-pager-older-link').getElementsByTagName('a'); piOTitle = '»» '+piOlder[0].href.split('/')[5].replace(/-/g,' ').replace(/.html/g,''); piOlder[0].innerHTML = piOTitle; a = document.createElement('a'); a.href = piOlder[0].href; a.innerHTML = piOTitle; a.id = 'top-pager-older-link'; a.title = piOlder[0].title; topPager.appendChild(a); } else { a = document.createElement('a'); a.innerHTML = ' '; a.id = 'top-pager-older-link'; topPager.appendChild(a); } a = document.createElement('a'); atxt = document.createTextNode('Home'); a.href= 'http://subagya.blogspot.com/'; a.appendChild(atxt); topPager.appendChild(a); }

World News

Popular Post

Random Post

Trending Topic

Featured Post 8

| Current News |


پاکستانی خفیہ ادارے حقوق کی پامالی میں ملوث: ایمنسٹی


پاکستانی خفیہ ادارے حقوق کی پامالی میں ملوث: ایمنسٹی

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل نے سال دو ہزار گیارہ کے حالات پر مبنی اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں حقوق انسانی کی صورتحال خراب ہی رہی اور سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار اکثر خلاف ورزیوں میں ملوث رہے۔
رپورٹ کےمطابق سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ادارے عمومی طور پر بغیر کسی روک ٹوک کے سرگرم رہے ۔ ان پر جبری گمشدگیوں، تشدد اور شہریوں، صحافیوں، کارکنوں اور مسلح گروہوں کے مشتبہ افراد پر بلاامتیاز تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کا سامنا رہا۔
نامہ نگار ہارون رشید کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر اب بھی بلوچستان اور شمال مغرب کے علاقوں میں جبری گمشدگیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سال اعلیٰ امریکی اہلکار پاکستان پر افغانستان میں طالبان کی مدد کے الزامات سرعام عائد کرتے رہے۔
ماورائے عدالت ہلاکتوں کی زیادہ خبریں بلوچستان کے ساتھ ساتھ شمال مغرب اور تشدد سے متاثرہ کراچی میں عام رہیں۔
ایمنٹسی نے الزام عائد کیا کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے تک نہیں لاسکی اور اکثر شکار افراد لاپتہ رہے۔
حکومت نے گزشتہ برس مارچ میں جبری گمشُدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن تشکیل دیا۔ لیکن سابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کو اس کمیشن کے سربراہ کے طور پر تعینات کرنے میں مزید چھ ماہ کا وقت لیا۔
اس سے پہلے ایک دوسرے کمیشن نے مارچ دو ہزار دس میں کام شروع کیا تھا جو سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے دو سو بیس کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔ دونوں کمیشنوں پر شاہدین کو تحفظ فراہم نہ کرنے اور خصوصاً ان واقعات کی مناسب تحقیقات نہ کرنے پر تنقید کی گئی جن میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ ادارے پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کا شک تھا۔
ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ افراد اس سال گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

"حکومت نے مارچ 2011 میں جبری گمشُدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن تشکیل دیا۔ اس سے پہلے ایک دوسرے کمیشن نے مارچ دو ہزار دس میں کام شروع کیا تھا جو سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے دو سو بیس کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔ دونوں کمیشنوں پر شاہدین کو تحفظ فراہم نہ کرنے اور خصوصاً ان واقعات کی مناسب تحقیقات نہ کرنے پر تنقید کی گئی جن میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ ادارے پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کا شک تھا۔"

ان علاقوں میں جنہیں شدت پسندوں سے خالی کروا لیا گیا وہاں بھی عدم تحفظ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی شکایات عام رہیں۔ گزشتہ جون میں صدر زرداری نے شمال مغرب صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کو مقدمات سے بعد از تاریخ استثناء اور بغیر کسی روک ٹوک کے نظربندی اور سزا کا بےتہاشہ اختیار دیا۔
رپورٹ کے مطابق عورتوں اور بچیوں کو لڑائی سے متاثرہ ملک کے شمال مغربی علاقوں اور بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
پاکستانی طالبان نے شہریوں کو نشانہ بنایا اور خودکش حملوں اور خودساختہ دھماکہ خیز مواد یعنی آئی ای ڈیز کے ذریعے بلاامتیاز حملے کیے۔ کئی قبائلی عمائدین کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔
طالبان نے عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک کئی سیاستدانوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے مطابق خیبر پختونخوا میں دو سو چھیالیس سکولوں کو (انسٹھ لڑکیوں کے اور ایک سو ستاسی لڑکوں کے) تباہ کیے جبکہ سات سو تریسٹھ (دو سو چوالیس لڑکیوں اور پانچ سو انیس لڑکوں کے) نقصان پہنچایا گیا۔ اس سے ہزاروں بچے تعلیم تک رسائی سے محروم ہوگئے۔
پاکستانی طالبان کے تشدد کے خوف کی وجہ سے صحت کی سہولتوں، تعلیم اور عوامی سرگرمیوں تک عورتوں اور بچیوں کی رسائی محدود رہی۔
آزادی اظہار کا مسئلہ بھی ایمنسٹی کے مطابق ایک بڑا تشویشناک پہلو رہا۔ دو ہزار گیارہ میں اس کے مطابق کم از کم نو صحافی ہلاک کیے گئے۔ میڈیا کے نمائندوں کو سکیورٹی فورسز، خفیہ اداروں، سیاسی جماعتوں اور مسلح گروہوں سے متعلق رپورٹنگ پر دھمکیوں کا سامنا رہا۔ پاکستانی حکام ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے یا صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
تنظیم کے مطابق فرقہ وارانہ گروہ اقلیتی احمدی، مسیحی، ہندو اور شیعوں کے ساتھ ساتھ معتدل سُنیوں کو ڈراتے دھمکاتے اور ملک میں رائج توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی بات کرنے والوں کے خلاف تشدد کے لیے ورغلاتے رہے۔ ریاست مذہبی اقلیتیوں کے خلاف فرقہ ورانہ حملے روکنے یا ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی۔
عورتوں کو قانونی اور غیرارادی امتیازی سلوک اور تشدد کا اندرون و بیرون خانہ سامنا رہا۔ عورت فاونڈیشن نے عورتوں کے خلاف تشدد کے مجموعی طور پر آٹھ ہزار پانچ سو انتالیس واقعات ریکارڈ کیے۔ان میں پندرہ سو پچھتر قتل، آٹھ سو ستائیس زنا بلجبر، چھ سو دس گھریلو تشدد، سات سو پانچ غیرت کے نام پر قتل اور چوالیس تیزاب گرانے کے واقعات تھے۔

 "سکیورٹی فورسز پر اب بھی بلوچستان اور شمال مغرب کے علاقوں میں جبری گمشدگیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سال اعلیٰ امریکی اہلکار پاکستان پر افغانستان میں طالبان کی مدد کے الزامات سرعام عائد کرتے رہے۔"


دسمبر میں پاکستانی پارلیمان نے ان مسائل پر قابو پانے کی خاطر ایسڈ کنٹرول اور ایسڈ کرائم پریوینشن بل 2010 اور خواتین مخالف واقعات (کریمنل لا امینڈمنٹ) بل 2008 منظور کیے تشدد میں ملوث افراد کی سزائیں مزید سخت کرکے عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں تیزاب پھینکنے اور جبری شادیوں کو جرم قرار دیا گیا۔
سزائے موت کے مسئلے پر پیپلز پارٹی حکومت کو حمتی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں آٹھ ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت کا سامنا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق کم از کم تین سو تیرہ افراد کو جن میں آدھے سے زائد قتل کے مقدمات تھے سزائے موت سنائی گئی۔ تین افراد کو توہین رسالت کے مقدمات میں سزائے موت سنائی گئی۔ البتہ آخری مرتبہ سزائے موت سال دو ہزار آٹھ میں دی گئی تھی۔
کراچی مختلف سیاسی اور نسلی گروہوں کے ساتھ منسلک مخالف گینگز کے درمیان میدان جنگ بنا رہا۔ مون سون سیلاب کے دوسرے سال نے مزید نقل مکانی اور ملک بھر میں ڈینگو بخار کی بیماری عام کی۔ بجلی کی جاری شدید قلت ملک بھر میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سبب اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی۔

Comments :

0 comments to “پاکستانی خفیہ ادارے حقوق کی پامالی میں ملوث: ایمنسٹی”

Post a Comment